تميمة والمرض - تعویز اور بیماری


    ’’ عن عقبة بن عامر الجهني رضي الله عنه أن رسول الله أقبل إليه رهط فبايع تسعة وأمسك عن واحد فقالوا يا رسول الله بايعت تسعة وتركت هذا ؟ قال إن عليه تميمة فأدخل يده فقطعها فبايعه وقال من علق تميمة فقد أشرك .

(مسند أحمد )‘‘

    عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ راوی حدیث ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جماعت آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان میں سے ) نو سے بیعت لی اور ایک کو چھوڑ دیا ، انھوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول آپ نے نو سے بیعت لی اور اسکو چھوڑ دیا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر تعویذ ہے
 (وہ تعویذ پہنے ہوۓ ہے )
 چنانچہ اپنے ہاتھ کو داخل کیا اور اس (تعویذ)کو کاٹ دیا اور فرمایا جس نے تعویذ پہنا اس نے شرک کیا 

 

کیا کھویا کیا پایا؛

جب پکڑایا ڈاکٹر نےدوائی کا پرچہ

اس نسخے پہ ہو گیا پانچ سو کا خرچہ

آرام نہ آنے پہ ہوئی وہ بےزار

دوائی پھینک کے گئی  فورًا وہ بازار

پیر بابا سے لے آئی بیماری کا تعویز

شک کا تحفہ بھی لے آئی ساتھ میں حفیظ

پیر صاحب نے ڈال دیا دل میں گمان

دیورانی تمہاری  نے لیا  ہے جادو کا سامان

ایسا وہ تعویزتیرے لیے لیکر آئی ہے

تبھی تو تیرے ہاتھوں درد کی دوائی ہے

اس بات پہ کی اس نے بابا سے فرمائش

تعویز کا توڑ بتانے کی ہے کوئی گنجائش

پیر بابا نے دیئے اس کو گندم کے دانے

پھینک اسکو اسکے گھر نہیں ہیں تم نے کھانے

اس کے گھر گندم کے دانے دے گرا

خودبخود مل جائے گا تعویز کا سرا

اگر ہو جائے تیری دیورانی وہ بیمار

سمجھ لینا کر رہی ہے وہ ہی تجھے خوار

دم ذدہ دانوں کی دیکھی خوب کرامت
اضافی تعویز بنا مرض کی علامت
دیوانی اسکی رہنے لگی بیمارلاچار

تعویز اس کا بنا اسکے آگے ہتھیار

وقت کا چکر الٹا تعویز بنا سزا
غلط کام کرنے کی مل گئی اسے جزا
چند مہینوں کے بعد ہوا پاگل جوان
بیٹے کے پاگل پن سے ہوئی پریشان
اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے والا کام
تعویز گنڈا اپنانے سے ہوتا ہے یہ ہی انجام 

یااللہ دن قیامت اپنے آگے کرنا سرخرو
اپنی رضامندی کے رستے دینا تو
 

 

1 comment: